ٹھنڈے مزاج کا بلےباز ضرور لیکن میری کپتانی ٹھنڈی نہیں: اظہر علی

مصباح الحق کے ہیڈ کوچ اور اظہر علی کے ٹیسٹ کپتان بننے کے بعد مختلف حلقوں کی جانب سے یہ کہا جانے لگا تھا کہ چونکہ دونوں احتیاط پسند اور دفاعی انداز کے حامل کرکٹرز ہیں لہٰذا دونوں کا یہ انداز پاکستانی ٹیم کے لیے کارآمد ثابت نہیں ہوسکے گا۔
لیکن مصباح الحق کے بعد اب اظہر علی بھی یہ کہہ رہے ہیں کہ آسٹریلیا کے مشکل دورے کے بعد پاکستانی ٹیم صحیح سمت کی طرف چل پڑی ہے اور وہ اپنے اور مصباح الحق کی احتیاط پسندی یا دفاعی سوچ کے بارے میں قائم کیے گئے تاثر کو درست نہیں سمجھتے۔
اظہر علی نے ویڈیو لنک کے ذریعے صحافیوں سے ہونے والی گفتگو میں کہا کہ ‘اس تاثر کو کیسے تبدیل کیا جائے؟ یہ پریس کانفرنس میں بول کر تبدیل نہیں ہوسکتا۔ دراصل لوگ بہت جلدی رائے قائم کرلیتے ہیں۔ سارے یہ سمجھتے ہیں کہ اگر وہ ٹھنڈے مزاج کی بیٹنگ کرتے ہیں اور آرام سے کھیلتے ہیں تو کپتانی بھی ایسے ہی کرتے ہیں، یہ درست نہیں۔‘
اظہر علی کہتے ہیں کہ جب وہ عام کھلاڑی کی حیثیت سے کھیل رہے تھے تو اس وقت مصباح الحق پر بھی یہی اعتراض ہوتا تھا جسے سن کر انھیں بہت غصہ آتا تھا کہ یہ نہیں دیکھا جاتا کہ جو صورتحال ہوتی ہے، اسی کے مطابق اپنے وسائل کو سامنے رکھ کر کپتانی کی جاتی ہے۔
اظہر علی نے نوے کی دہائی اور سن دو ہزار کے اوائل کی آسٹریلوی ٹیموں کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ آپ کو لگے گا کہ اس کے کپتان بڑے جارحانہ انداز کے تھے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان ٹیموں کے بولنگ اٹیک بہت مضبوط تھے۔ ‘ان کے بولرز خود ہی اپنی فیلڈنگ سیٹ کر لیتے تھے۔ میک گرا، بریٹ لی اور شین وارن جیسے بولرز کی کپتانی کرنا آسان تھا۔‘
اظہر علی نے کہا پاکستانی ٹیم نے حالیہ برسوں میں اپنی تمام تر ٹیسٹ کرکٹ متحدہ عرب امارات میں کھیلی ہے جہاں کی کنڈیشنز آسٹریلیا سے مختلف ہیں، جہاں آپ فاسٹ بولر کی بولنگ پر چار سلپ نہیں کھڑی کرسکتے۔ ‘وہاں آپ کو دوسرے انداز سے اٹیک کرنا پڑتا ہے۔ آپ جارحانہ کپتانی ضرور کرتے ہیں لیکن آپ کو توازن رکھنا پڑتا ہے۔‘
اظہر علیتصویر کے Y IMAGES
Image caption'کرکٹ ذمہ داری کے ساتھ ساتھ انجوائے کرتے ہوئے کھیلنی چاہیے۔': اظہر علی
اپنے بااختیار کپتان ہونے کے بارے میں سوال پر اظہر علی کا کہنا ہے کہ اگر انھیں ان کی مرضی کی ٹیم مل رہی ہے تو انھیں یہ دعویٰ کرنے کی ضرورت نہیں کہ وہ بااختیار کپتان ہیں۔
انھوں نے کہا کہ جہاں تک مکمل اتھارٹی کی بات ہے تو وہ انھیں حاصل ہے۔ اظہر علی کے مطابق مصباح الحق کے بیک وقت چیف سلیکٹر اور ہیڈ کوچ ہونے کا انھیں فائدہ ہوا ہے کہ اب انھیں ایک ہی شخص کے ساتھ ٹیم سلیکشن اور ٹیم کی حکمت عملی پر بات کرنی پڑتی ہے۔
‘پہلے یہ ہوتا تھا کہ آپ کو چیف سلیکٹر اور ہیڈ کوچ کو الگ الگ قائل کرنا پڑتا تھا۔ مصباح الحق کے ساتھ میری کیمسٹری بہت اچھی ہے اور سلیکشن کے معاملے میں ہم باہمی اتفاق سے فیصلے کرتے ہیں اور کبھی کوئی اختلاف نہیں ہوا۔ مصباح الحق نے جہاں مناسب سمجھا ہے کپتان کی حیثیت سے ان کی بات مانی ہے اور وہ یہ اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ میدان میں کپتان نے ہی ٹیم کو لڑانا ہوتا ہے۔‘
اظہر علی کا کہنا ہے کہ وہ ڈریسنگ روم کے خوشگوار ماحول کو بہت زیادہ اہمیت دیتے ہیں کیونکہ اگر کھلاڑی ریلیکس ہونگے تو وہ دباؤ میں بھی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کریں گے۔ ‘کرکٹ ذمہ داری کے ساتھ ساتھ انجوائے کرتے ہوئے کھیلنی چاہیے۔‘
اظہر علی نے تسلیم کیا کہ گذشتہ ایک دو سال سے ان کی کارکردگی پہلے جیسی نہیں رہی۔ انھیں گھٹنے کی تکلیف ایک ایسے وقت ہوئی تھی جب وہ بھرپور فارم میں تھے۔
کرکٹتصویر کے کY IMAGES
Image captionاظہر علی کا کہنا ہے کہ وہ ون ڈے انٹرنیشنل میں واپس آنے کے بارے میں نہیں سوچ رہے
اس تکلیف کی وجہ سے وہ خاصے پریشان رہے تاہم ان کی رائے میں ہر کرکٹر کے کیریئر میں فٹنس کا مسئلہ ضرور آتا ہے ان کی کوشش ہے کہ اپنی پرانی فارم میں واپس آئیں۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ ون ڈے انٹرنیشنل میں واپس آنے کے بارے میں نہیں سوچ رہے ہیں بلکہ ان کی توجہ اس بات پر ہے کہ ٹیسٹ کرکٹ میں پہلے جیسی کارکردگی دکھائیں۔
اظہرعلی کا کورونا وائرس کی وجہ سے پیدا ہونے والی صورتحال کے بارے میں کہنا ہے کہ یہ انتہائی غیرمعمولی صورتحال ہے جو پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی۔
‘کھلاڑی کھیلنا کبھی نہیں بھول سکتے لیکن جب آپ پریکٹس میں نہیں رہتے تو فارم ضرور اوپر نیچے ہوتی ہے۔ کھلاڑیوں کے لیے ضروری ہے کہ جتنا عرصہ کرکٹ نہیں ہورہی وہ اپنی فٹنس کو برقرار رکھنے کی کوشش کریں اسی لیے انھیں ایک پروگرام دے دیا گیا ہے اور اسی کے تحت تمام کرکٹرز کے ویڈیو فٹنس ٹیسٹ بھی ہونگے۔‘

Post a Comment

0 Comments