سپین کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے جو کورونا وائرس سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ اور وہاں کورونا کے بڑھتے متاثرین کے باعث ادویات اور طبی آلات کی اشد ضرورت ہے خصوصاً ان علاقوں میں جہاں کووڈ 19 کے سب سے زیادہ مریض سامنے آئے ہیں۔
لیکن ان طبی آلات کو جلد از جلد حاصل کرنے کی تمام تر کوششیں ترکی کی حکومت کے ساتھ پیدا ہونے والے ایک تنازے کی نظر ہو گئی ہیں۔ کیونکہ سپین کے تین خطوں کے صحت کے محکموں کی جانب سے خریدے جانے والے طبی آلات جن میں سینکڑوں این 95 ماسک شامل ہیں کے مال بردار جہاز کو ترک حکومت نے روک رکھا تھا۔
سپین کے مقامی میڈیا نے مقامی ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے موجودہ حالات کے پیش نظر اس کو 'چوری' قرار دیا ہے۔
تاہم سپین کی وزارت خارجہ کی جانب سے تقریباً ایک ہفتے کے مذاکرات کے بعد سپین یہ سامان حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا ہے۔ لیکن یہ ان تنازعات کی ایک مثال ہے جنھیں دنیا بھر میں کورونا وائرس کے باعث بڑھاوا مل رہا ہیں۔
تنازعات کہاں پیدا ہو رہے ہیں؟
یہ درست ہے کہ امریکہ اور چین کے درمیان لفظی جنگ توجہ حاصل کرتی ہے، خصوصاً جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ یہ کہ کر عالمی ادارہ صحت کی امداد بند کرنے کی دھمکی دیتے ہیں کہ ادارہ 'چینی کی طرف جانبداری' دکھاتا ہے۔
لیکن کہیں اور بھی چنگاریاں اٹھ رہی ہیں، اور ہر بار لازم نہیں ہے کہ چین اس میں شامل ہو جس پر کورونا وائرس کے متعلق حقیقت چھپانے اور متاثرین کی تعداد کم بتانے کے الزامات ہیں۔
لندن سکول آف اکنامکس کے ادارہ برائے عالمی امور میں سیاسی و سماجی محقق صوفیہ گیسٹن نے بی بی سی سے بات کرتے ہو بتایا کہ 'اصل میں تو یہ ہونا چاہیے تھا کہ دنیا کے تمام ملک ایسے وقت میں ایک دوسرے کے قریب آتے جب ہم سب ایک ہی دشمن کے خلاف لڑائی لڑ رہے ہیں۔ لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہوا بلکہ ہمیں تمام ملک ایک دوسرے کی مدد کے بجائے ایک دوسرے سے مقابلہ کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔'
اس کی ایک مثال یورپی یونین کے ممالک کے درمیان کشیدگی کی ہے۔
جب اٹلی میں یک دم کورونا کے متاثرین کی تعداد میں شدید اضافہ ہوا تو اس نے اپنے ہمسایہ ممالک سے ادویات اور دیگر طبی آلات کی فراہمی کے لیے مدد طلب کی تھی مگر جرمنی اور فرانس دونوں ممالک نے ان اشیا کو برآمد کرنے پر پابندی عائد کر دی۔
بیلجیئم میں اٹلی کے سفیر موریزو میساری نے ویب سائٹ پولیٹکو پر لکھا کہ 'یقیناً یہ یورپی یکجہتی کی اچھی مثال نہیں ہے۔'
اٹلی بھی جرمنی کی ایک اور لڑائی لینے کی حکمت عملی سے زیادہ متاثر نہیں تھا۔ جرمنی بھی ان ممالک میں سے ایک تھا جس نے اس وبا کے دوران سب سے زیادہ متاثر ہونے والے یورپی ممالک کی مدد کرنے کے اعلان کی تجویز کی مخالفت کی تھی۔
نیدرلینڈ ، آسٹریا اور فن لینڈ نے بھی اس منصوبے کی عوامی سطح پر مخالفت کی جبکہ سپین، فرانس، بیلجیئم، یونان، آئرلینڈ، پرتگال، سلووینیا اور لگزیمبرگ نے اس سکیم کی حمایت کی تھی۔ جس نے یورپی یونین میں مزید تقسیم نمایاں کر دی۔
اب یورپی ممالک نے 500 ارب یورو کے ایک ہنگامی پیکیج پر اتفاق کیا ہے تاکہ وبا سے متاثرہ ممالک کی مدد کی جکا سکے۔
چین کی 'ماسک سفارتکاری'
چین نے اپنے ملک میں کورونا وائرس پر قابو پا کر روس سمیت مختلف بر اعظموں میں دنیا کے متعدد ممالک کو اس مرض کو قابو پانے کے لیے تمام تر مدد فراہم کی ہے۔ اٹلی کو چین کی جانب سے ادویات و آلات، ٹیسٹنک کٹس اور مرض پر قابو پانے کی حکمت عملی کے لیے چینی ڈاکٹروں کی ایک ٹاسک فورس کی صورت میں مدد بھی ملی۔
اصل میں اٹلی کے سوشل میڈیا پر اطالوی زبان میں ہیش ٹیگ ’گریزی سینا‘ یعنی شکریہ چین بھی ٹرینڈ کرتا رہا۔
لندن میں موجود پیکس ٹیکم نامی ایک کنسلٹینسی فرم جو سفارتی اور عالمی امور پر مہارت رکھتی ہے کے سربراہ گیزو انٹونیو بائز کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ کے سنہ 2016 میں اقتدار میں آنے کے بعد سے ان کی 'سب سے پہلے امریکہ' پالیسی نے مزید نقصان پہنچایا ہے اور چین، امریکہ کی جانب سے عالمی افق پر خالی کی جانے والی جگہ کو پر کرتے ہوئے فائدہ اٹھا رہا ہے۔
کچھ بھی ہو، واشنگٹن کا مؤقف مفاہمت کا نہیں رہا ہے۔
چین کے ساتھ ہونے والے تنازعات کے علاوہ، جب صدر ٹرمپ نے جرمنی کی ایک میڈیکل کمپنی کی تیار کردہ کووڈ 19 ویکسین کے خصوصی حقوق حاصل کرنے کی کوشش کی تو انھوں نے جرمن حکام کو اشتعال دلایا۔
حال ہی میں امریکی صدر ٹرمپ نے انڈیا کی جانب سے ملیریا کے علاج کے لیے استعمال کی جانے والی دوا ہائیڈروکلورکوئین کی برآمد پر پابندی لگانے کے فیصلے پر سخت نتائج کی دھمکی دی تھی۔
واضح رہے اس دوا کا کووڈ-19 کے خلاف علاج کے لیے تجربہ کیا جا رہا ہے۔
بائز کا کہنا ہے کہ 'امریکہ اس بحران میں ایک سفارتی طاقت کے طور پر سامنے نہیں آیا اور اب چین کے پاس اس خلا کو پُر کرنے کا موقع ہے۔'
صوفیہ گیسٹن کے مطابق 'ماسک سفارتکاری' ایک آسان عمل نہیں ہے جیسا کہ برازیل کے رویے سے واضح ہوتا ہے۔ یہ تاثر کہ چین کورونا کی تیزی سے پھیلتی وبا کو روکنے میں ناکام رہا جلد ہی عالمی غصے میں تبدیل ہو گیا۔'
سوشل میڈیا پر چین اور برازیل کے درمیان تنازعات
انھوں نے امریکی خفیہ ادارے کی ایک رپورٹ کا حوالہ دیا جس میں چین پر کورونا وائرس کے مریض اور اموات چھپانے کا الزام ہے۔ جبکہ برطانوی حکام نے بھی چین کے سرکاری اعداد وشمار پر سوال اٹھائے ہیں۔
گیسٹن کا مزید کہنا تھا کہ 'جہاں ایک طرف چین بڑے پیمانے پر اپنے تاثر کو بہتر کرنے کے لیے مہم چلا رہا ہے وہیں اس پر سخت نگرانی بھی کی جا رہی ہے۔ وہاں اگر کورونا وائرس کے اعدادو شمار زیادہ نکلے تو ان کو دنیا کے سخت ردعمل کا سامنا کرنا پڑے گا۔'
برازیل بھی چین کی مؤقف پر سوال اٹھا رہا ہے۔ جب سے وبا کا آغاز ہوا ہے چین اور برازیل میں متعدد بار سخت جملوں کا تبادلہ ہوا ہے۔ اور یہ یہاں تک پہنچ گیا کہ سوشل میڈیا پر چینی سفارتکار اور برازیلی صدر کے قریبی حلقے ایک دوسرے سے تلخ کلامی کرتے نظر آئے۔
حالیہ واقعے میں برازیلی وزیر تعلیم ابراہم وینتراب نے چینی حکام کو یہ کہہ کر ناراض کیا کہ ان کے ’ایشیائی ہم منصب نسل پرست ہیں۔'
برزایل میں چینی سفارتخانے کی جانب سے جاری کردہ ٹویٹ میں کہا گیا کہ 'اس طرح کے بیانات فضول اور نفرت آمیز ہیں اور اس میں نسلی امتیاز کا عنصر نمایاں ہوتا ہے۔'
چین برازیل کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے، یہ برازیل سے 80 فیصد سویا خریدتا ہے۔ جبکہ برازیل کے وزیر صحت کی مداخلت سے قبل ملک کے محکمہ صحت کو چین سے وینٹی لیٹرز اور دیگر صحت عامہ کے سہولیات حاصل کرنے میں دشواریاں پیش آ رہی تھیں۔
پہلے سے موجود اختلافات میں اضافہ
بائز کا کہنا ہے کہ 'یہ واقعہ ظاہر کرتا ہے کہ اب پہلے سے زیادہ سفارتکاری کی ضرورت کیوں ہے؟ ممالک کو صورتحال کا بہتر طور پر جائزہ لینے اور اپنے خدشات کا مناسب انداز میں اظہار کرنے کی ضرورت ہے۔'
لیکن یہ وائرس دنیا کے ممالک جیسا کہ کولمبیا اور ونیزویلا کے درمیان تعلقات میں پہلے سے موجود تنازعات کو مزید بھڑکانے میں جلتی پر تیل کا کام کر رہا ہے۔
کولمبیا کی حکومت وینزویلا کے صدر نکولس مادورو کی حکومت کی قانونی حیثیت کو تسلیم نہیں کرتی اور سرحد پار سے وینزویلا کے تارکین وطن کی بڑی تعداد میں آمد کے بعد دونوں ہمسایہ ممالک کے آپس میں اختلافات ہیں۔
حال ہی میں یکم اپریل کو ونیزویلا کے صدر مادورو کی جانب سے کولمیبیا کے صدر کو کووڈ 19 کے ٹیسٹ کرنے والی دو مشینیں دینے کی پیشکش کی گئی۔
0 Comments