کورونا وائرس: کیا اقلیتی برادریاں کورونا وائرس سے زیادہ متاثر ہو رہی ہیں؟

کورونا وائرس کسی کو بھی متاثر کر سکتا ہے لیکن مریضوں کے اعداد و شمار سے یہ بات سامنے آ رہی ہے کہ جن ممالک میں کورونا وائرس کی وبا بڑے پیمانے پر پھیل رہی ہیں وہاں اقلیتی طبقے دوسروں کی نسبت زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔
کُل آبادی کا ایک تہائی ہونے کے باوجود امریکہ کے شہر شکاگو میں اس وائرس سے متاثر ہونے والے 70 فیصد افراد سیاہ فام ہیں۔
نیو یارک سمیت کچھ دیگر امریکی شہروں سے بھی ایسی ہی اطلاعات آرہی ہیں۔

برطانیہ میں کیا صورتحال ہے؟

برطانیہ میں کورونا وائرس سے مرنے والوں کی تعداد کو ابھی تک مکمل طور نسلی اور گروہی طبقوں کی بنیادوں پر پرکھا نہیں گیا ہے۔
لیکن کچھ ایسے شواہد سامنے آئے ہیں جو ظاہر کرتے ہیں کہ کورونا کی وبا معاشرے کے تمام طبقوں کو ایک ہی طرح متاثر نہیں کر رہی۔
انٹینسیو کیئر نیشنل آڈٹ اینڈ ریسرچ سینٹر (آئی سی این اے آر سی) کے اعداد و شمار کے مطابق کورونا وائرس سے شدید متاثر ہونے والے افراد میں 35 فیصد مریض سیاہ فام آبادی یا اقلیتی برادریوں سے تعلق رکھنے والے شہری ہیں۔
آئی سی این اے آر سی کی تحقیق انگلینڈ، ویلز اور شمالی آئرلینڈ میں کورونا کے دو ہزار مریضوں پر مشتمل ہے۔
کورونا وائرس کی علامات کیا ہیں اور اس سے کیسے بچیں؟ 
اس تحقیق کے مطابق کووڈ 19 کے شدید علیل مریضوں میں تیرہ اعشاریہ آٹھ فیصد ایشیائی باشندوں کی ہے۔
برطانیہ کی آبادی میں ایشیائی باشندوں کا تناسب سات اعشایہ پانچ فیصد ہے۔
اسی طرح کووڈ 19 کے شدید علیل مریضوں میں 13.6 فیصد تقداد سیاہ فام باشندوں کی ہے، جو برطانیہ کی کل آبادی کا صرف تین اعشاریہ تین فیصد ہیں۔
برطانیہ میں 2011 میں ہونے والی مردم شماری کے مطابق سیاہ فام اور اقلیتی پس منظر والی آبادی ملک کی کل آبادی کا چودہ فیصد ہے۔
یونیورسٹی آف لیسٹر سے تعلق رکھنے والے پروفیسر کاملیش خونتی کا کہنا ہے کہ بہت سے لوگ اس بارے میں فکر مند ہیں لیکن اس کے بارے میں کوئی ٹھوس شہادت نہیں تھی لیکن ان کے مطابق اب انتہائی نگہداشت والے یونٹس میں داخل ہونے والے مریضوں کے ڈیٹا سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ آئی سی یو میں داخل ہونے والے مریضوں کی بڑی تعداد کا تعلق سیاہ فام اور ایشیائی نژاد آبادی سے ہے۔
ڈاکٹر کاملیش نے خبردار کیا کہ یہ ابتدائی ڈیٹا ہے اور اس رجحان کو سمجھنے کے لیے مزید تحقیق اور تجزیے کی ضرورت ہے۔

لندن کی صورتحال

برطانیہ میں لندن کورونا وائرس کے مریضوں کا ایک بڑا مرکز ہے اور برطانیہ میں کورونا وائرس سے بری طرح متاثرہ دس آبادیوں کا تعلق بھی لندن سے ہے۔
لندن کے علاقے برینٹ میں ہر ایک لاکھ لوگوں میں سے 250 کورونا سے متاثر ہیں اور یہ تناسب ملک بھر میں سب سے زیادہ ہے۔
لندنتصویر کے کاپی رائٹFP
Image captionلندن کی کل آبادی کا ساٹھ فیصد سفید فام باشندوں پر مشتمل ہے جبکہ بقیہ 40 فیصد کا تعلق مختلف قوموں اور نسلوں سے ہے
برینٹ سیاہ فام اور ایشیائی آبادی کے تناسب کے لحاظ سے لندن کا دوسرا بڑا مرکز ہے۔
لندن کی کل آبادی کا ساٹھ فیصد سفید فام باشندوں پر مشتمل ہے جبکہ بقیہ 40 فیصد کا تعلق مختلف قوموں اور نسلوں سے ہے۔
برطانیہ کی اقلیتوں میں کورونا وائرس کے زیادہ کیسز کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔
پروفیسر کاملیش خونتی کا کہنا ہے کہ اقلیتوں کی اکثریتی آبادی کا تعلق نچلے طبقے سے ہے اور وہ ایسے پیشوں سے منسلک ہیں، جہاں انھیں پبلک کا سامنا ہوتا ہے۔
اس کے علاوہ ’اعتقادات اور رویے بھی اس کا باعث ہو سکتے ہیں، جیسے دل کے مریضوں اور ذیابیطس کے مریضوں میں دیکھنے میں آ رہا ہے۔‘
ایسے گھروں میں جہاں گنجائش سے زیادہ لوگ رہائش پذیر ہوں، وہاں خود ساختہ تنہائی میں مشکل پیش آتی ہے۔
حکومتی اعداد و شمار کے مطابق برطانیہ کے بنگلہ دیشی نژاد خاندانوں کے ایک تہائی گھروں میں گنجائش سے زیادہ لوگ رہائش پذیر ہوتے ہیں۔ اسی طرح سیام فام گھروں میں 15 فیصد ایسے گھر ہیں جہاں گنجائش سے زیادہ لوگ رہائش اختیار کیے ہوئے ہیں۔
برطانیہ کی سفید فام آبادی میں صرف دو فیصد ایسے گھر ہیں جہاں گنجائش سے زیادہ لوگ مقیم ہیں۔

’کی ورکر‘ (کلیدی کارکن)

سیاہ فام اور اقلیتی طبقوں سے تعلق رکھنے والے افراد ایسے شعبوں میں کام کرتے ہیں جو کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے صف اول میں ہیں۔
انگلینڈ میں نیشنل ہیلتھ سروس میں ہر پانچ میں سے ایک شخص کا تعلق اقلیتی برادری سے ہے اور اگر ہم این ایچ ایس میں کام کرنے والے ڈاکٹروں اور نرسوں کے اعداد و شمار کا جائزہ لیں تو یہ تناسب اور زیادہ ہو جاتا ہے۔
اسی طرح امریکی شہر شکاگو میں کورونا وائرس سے متاثرہ 70 فیصد لوگوں کا تعلق سیاہ فام کمیونٹی سے ہے جو شہر کی آبادی کا 33 فیصد ہیں۔

Post a Comment

0 Comments