کورونا وائرس: دنیا بھر میں لاک ڈاؤن پر کیسے عمل ہو رہا ہے؟

کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے دنیا بھر میں غیر معمولی اقدامات کیے جا رہے ہیں اور سپین سے لے کر امریکہ تک حکومتیں اس وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے کوششیں کر رہی ہیں۔
بین الاقوامی سفری پابندیوں کے ساتھ ساتھ کچھ ممالک اندرون ملک سفر بھی روکنے کی کوشش کر رہے ہیں اور لوگوں کا عوام میں میل جول بھی روک رہے ہیں۔
ہیلتھ پالیسی اور انسانی حقوق کے کارکن حکومتوں کو متنبہ کر رہے ہیں کہ انھیں شخصی آزادیوں اور صحت کے تقاضوں کے درمیان توازن پیدا کرنا ہو گا۔ تو اس صورتحال میں مختلف ممالک قرنطینے اور لاک ڈاؤن پر کیسے عمل کروا رہے ہیں؟
چین، جہاں سے اس وائرس کا پھیلاؤ شروع ہوا تھا، ہفتوں تک اسے روکنے میں ناکام رہا۔ وائرس کو ایک لمبے عرصے تک پھیلنے سے روکنے میں ناکام رہنے پر اس کی دنیا بھر میں مذمت ہوئی۔ یہ بھی کہا گیا کہ چین وائرس کی شدت کو گھٹا کر پیش کر رہا ہے۔
حالات خراب ہونے پر سب سے پہلے ووہان کو لاک ڈاؤن کا سامنا ہوا۔ تمام سفری سہولیات معطل کر دی گئیں۔ اس لاک ڈاؤن سے لاکھوں کی تعداد میں لوگ متاثر ہوئے۔
اس وائرس کے پھیلنے کے بارے میں معلومات شیئر کرنے والے دو صحافی لاپتہ ہو گئے۔
سڑکوں پر لوگوں کا درجہ حرارت چیک کیا جانے لگا۔ عمارتوں میں سے لوگوں کو باہر نکلنے سے روکا جانے لگا۔ چین پر یہ بھی الزام لگایا جاتا ہے کہ اس نے لوگوں کے بارے میں خفیہ معلومات کا اس دوران استعمال کیا تاکہ ان پر نظر رکھی جا سکے۔
چین میں حالات معمول پر آنے کے ساتھ زندگی پٹڑی پر لوٹتی نظر آنے لگی ہے۔ انسانی حقوق کی چند تنظیمیں، مثال کے طور پر ہیومن رائٹس واچ نے چین کی وائرس سے نمٹنے کی کوششوں پر عالمی ادارہ صحت کے ردِعمل پر تنقید کی ہے۔ انسانی حقوق کے کارکنوں کے مطابق ان اقدامات کی تعریف کرنے سے انسانی حقوق پر پابندیوں اور حکومتی سینسرشپ کو جواز مل سکتا ہے۔
عالمی سطح پر گذشتہ چند ہفتوں میں حالات زیادہ خراب ہوئے ہیں اور چین کے بعد سب سے زیادہ متاثرہ ملک اٹلی ہے۔
اٹلی میں حکومت نے چھ کروڑ کی آبادی سے گھروں میں رہنے کو کہا ہے۔ سب سے پہلے ملک کے شمالی حصوں میں سفری پابندیاں عائد کی گئیں جس کے بعد انھیں پورے ملک تک پھیلا دیا گیا۔
اب صرف انتہائی ضرورت کے تحت ہی کوئی گھر سے باہر نکل سکتا ہے اور ایسی صورت میں انھیں اپنے ساتھ ایک فارم رکھنا ہوگا کہ ان کا سفر کرنا کیوں ضروری ہے۔ پابندی کی خلاف ورزی کرنے والے کو 206 یورو (235 ڈالر) تک کا جرمانہ یا تین ماہ جیل بھی ہو سکتی ہے۔
پیرس کا ایک منظرتصویر کے کاERS
Image captionپیرس کی مشہور یادگار عوام سے خالی دکھائی دے رہی ہے
سپین میں بھی لوگوں کو لاک ڈاؤن کا سامنا ہے۔ غیر ضروری طور پر گھر سے نکلنے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے اور تمام عوامی مقامات کو بند کر دیا گیا ہے۔ سپین کے وزیر اعظم پیدرو سانچیز نے عوامی ایمرجنسی نافذ کرتے ہوئے لوگوں سے کہا ہے کہ تب تک گھر سے نہ نکلیں جب تک کوئی مجبوری نہ ہو۔ انھوں نے عوام سے کہا کہ ملک کو مشکل حالات کا سامنا ہے۔
یہ اطلاعات بھی آ رہی ہیں کہ لوگوں کو اکٹھا ہونے سے روکنے کے لیے مختلف مقامات پر سیکیورٹی اہلکار بھی تعینات کر دیے گئے ہیں۔ مقامی میڈیا کے مطابق بے گھر افراد کے تحفظ اور انھیں رہائش فراہم کرنے کے لیے مسلح افواج بھی تعینات ہیں۔
چند ممالک نے وائرس کو پھیلانے میں کردار ادا کرنے والے کے خلاف سخت سزا کا اعلان بھی کیا ہے۔ سعودی عرب نے ملک میں داخل ہونے پر اپنے سفر اور اپنی صحت سے متعلق تفصیلات چھپانے والوں پر ایک لاکھ 33 ہزار ڈالر جرمانہ عائد کرنے کا اعلان کیا ہے۔
چند ممالک نے تو اپنے ہاں داخل ہونے پر ہی پابندی لگا دی ہے۔ چند ممالک ملک میں داخل ہونے والوں سے کہہ رہے ہیں کہ وہ خود کو کم از کم 14 دنوں کے لیے بالکل الگ تھلگ رکھیں، ہو سکے تو کسی ہوٹل کے کمرے میں۔
آسٹریلیا نے بھی اعلان کر دیا ہے کہ خود کو تنہا رکھنے کے قانون کو نہ ماننے والے لوگوں کو سخت جرمانہ ادا کرنا پڑ سکتا ہے اور جیل بھی ہو سکتی ہے۔
نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جسنڈا آرڈرن نے تنبیہ کی ہے کہ مسافر اگر خود کو تنہا رکھنے کے ضوابط پر عمل نہیں کریں گے تو ان کو جرمانے کے علاوہ ملک سے باہر نکالے جانے جیسی سزا کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’اگر آپ یہاں آتے ہیں اور خود کو تنہا کرنے کے بارے میں ہماری درخواست ماننے کا آپ کا کوئی ارادہ نہیں ہے تو ہم آپ کا خیر مقدم نہیں کرتے۔ اس سے پہلے کہ ہم آپ کو باہر نکالیں آپ خود یہاں سے چلے جائیے۔‘
نیوزی لینڈ کی وزیر اعظمتصویر کے کGES
Image captionنیوزی لینڈ نے بھی مسافروں پر زور دیا ہے کہ وہ خود کو تنہا رکھنے کے ضوابط کی پاسداری کریں
امریکہ میں ’سینٹر فار ڈزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن‘ (سی ڈی سی) کے پاس امریکہ میں اور اس کی ریاستوں کے مابین بیماریاں پھیلنے سے روکنے کا اختیار موجود ہے۔ اور اس اختیار کو اس وقت نافذ کیا گیا جب ووہان سے آنے والے امریکیوں کو واپس آنے پر کیلیفورنیا کے ایک فوجی اڈے پر لازمی قرنطینے میں رکھا گیا تھا۔
سی ڈی سی نے واضح کیا ہے کہ ریاستی، مقامی اور قبائلی اہلکاروں کے پاس اپنی سرحدوں کے اندر وبا کو پھیلنے سے روکنے کے لیے پولیس اختیارات بھی ہیں۔ چند ریاستوں نے عوامی مقامات پر اکٹھا ہونے پر پابندی بھی لگا دی ہے۔ کئی مقامات ایسے ہیں جہاں ایک وقت میں 50 سے زیادہ لوگ اکٹھے نہیں ہو سکتے۔
نیویارک میں گرینڈ سنٹرل سٹیشن کا ایک منظرتصویر کے TTY IMAGES
Image captionنیویارک میں گرینڈ سنٹرل سٹیشن کا ایک منظر
ایسے کیس بھی سامنے آئے ہیں کہ لوگ ان پابندیوں کی خلاف ورزی کر رہے ہیں اور اس سے انتظامیہ کے لیے مشکلیں پیدا ہو رہی ہیں۔ مقامی میڈیا کے مطابق کینٹکی میں ایک شہری نے گھر میں بند رہنے سے انکار کر دیا جس کے بعد یہ یقینی بنانے کے لے کہ وہ گھر سے باہر نہ نکلے اس کے گھر کے باہر پولیس تعینات کرنی پڑی۔

Post a Comment

0 Comments